مدرسین کے اسناد کی جانچ کے پیچھے حکومت کی منشا کہیں کچھ اور تو نہیں۔

 مدرسین کے اسناد کی جانچ کے پیچھے حکومت کی منشا کہیں کچھ اور تو نہیں۔ 


                                                      از قلم۔ 

                 احمد حسن سعدی امجدی۔ 


چند روز قبل حکومت اترپردیش کی جانب سے اعلان کردہ بیان آج ہر چہار جانب مطمح نظر بنا ہوا ہے ، جس میں وزیراعلیٰ نے صوبہ اتر پردیش کے 558 سرکاری مدارس کے جملہ مدرسین و ملازمین کے اسناد کی از سر نو جانچ کا اعلان کیا ،تاہم یو پی حکومت نے اس جانچ کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس جانچ میں جو مدرسین فرضی مارکشیٹوں کے ذریعے اپنی ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ کوئی ٹیچر کسی اور کی جگہ پر ملازمت تو نہیں کر رہا ، 

واضح رہے کہ یوپی سرکار کا مدارس کے تیئیں ایسا قدم پہلی بار نہیں ہے بلکہ یوگی جی نے 2017 ء میں یوپی کی کمان سنبھالتے ہی مدارس کی جانچ کا اعلان کیا تھا ، لہذا حکومت کے مطابق جانچ ہوئی اور جانچ میں ساری چیزیں اپنی جگہ پر درست تھیں ، جس سے یوپی حکومت اپنی گھٹیا سازش میں ناکام ہوتی ہوئی نظر آئی. 

اور تاہم حکومت کی ایما پر اترپردیش مدرسہ پورٹل لانچ کیا گیا اور مدارس کا سارا ڈیٹا پورٹل میں اپلوڈ کیا گیا، تو اب حکومت مدارس کے اساتذہ یا مدارس پر دباؤ کیوں بنا رہی ہے، اگر اسے جانچ ہی کرنا ہے تو پورٹل پہ سارا ریکارڈ موجود ہے وہیں سے ڈیٹا کی جانچ کرا لیں ، خیر، معلومات کے مطابق مدرسین اپنے اسناد جمع کرنے میں لگ گئے ہیں، اور وہ کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ، کر نہیں تو ڈر کیسا،بلا شبہ مدارس کے تمام ذمہ داران حکومت کے اس قدم کا استقبال کرتے ہیں. 


لیکن ایسے نازک ترین وقت میں جبکہ پوری دنیا کرونا جیسی مہلک وبا کی زد میں ہے، یوپی حکومت کا یہ قدم ناقابل ہضم ہے، ویسے بھی لاک ڈاؤن سے ہزاروں مدارس و مکاتب باہر سے چندہ نہ آنے کی وجہ سے شدید خسارے میں ہیں ، یہاں تک کی ان میں سے بعض تو بند ہونے کے دہانے پر ہیں،کیونکہ حکومت تو فقط مدرسین کی تنخواہ فراہم کرتی ہے، اس کے علاوہ سال بھر تک طلبہ کے قیام و طعام اور تعمیراتی امور کا انحصار صرف اور صرف چندوں پر ہی ہوا کرتا ہے ، ایسے میں مدرسین کو ان کی اسناد کی جانچ کے ذریعہ پریشان کرنا ہمارے احساسات پر مزید قدغن لگانے کے مانند ہوگا ،اور بلا شبہ یوگی حکومت کے ان اقدام سے اس بات کا اندازہ تو بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حالات چاہے جیسے ہوں یہ حکومت ہمیشہ اسلام اور مسلم منافرت کو سامنے رکھ کر نت نئے ہتھکنڈوں کے اپنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تی۔ 


حالانکہ گاوں،دہاتوں میں سیکڑوں پرائمری اسکول ایسے ہیں جہاں پڑھائی کے نام پر غریب بچوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے، حتی کہ بعض ملازم تو پوری پوری گھنٹیاں آرام ہی میں گزار دیتے ہیں اور غریب طلبہ بھی کھچڑی کھانے کی لالچ میں انجانے میں اپنی قیمتی زندگی برباد کر دیتے ہیں ، 

کیا ہی اچھا ہوتا کہ یوپی سرکار پہلے ان پرائمری اسکولوں کے تعلق سے کوئی اہم فیصلہ لے، وہاں اچھی تعلیم کا اہتمام کرے ،ان میں ملازمین کے اسناد کی جانچ کراۓ، 

لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت یہ سب دیکھنے سے عاری ہے ، ان کی نگاہوں میں تو صرف مدارس اور مدارس کے مدرسین ہی کھٹک رہے ہیں۔ 


اللہ مدارس اسلامیہ کو حکومت کی اس شرانگیزی سے محفوظ فرمائے ، آمین ثم آمین


                                       احمد حسن سعدی امجدی۔ 


                     متعلم ، جامعة البركات علی گڑھ۔  


                                                                    مسکن۔ 

         لکھن پوروا، رودھولی بازار ضلع بستی، یوپی الہند۔ 

8840061391

Comments

Popular posts from this blog

امام حسین اور فلسفہ شہادت