انسانیت کی مثال بنے امریکی عوام، لیکن ہم کہاں ہیں؟
انسانیت کی مثال بنے امریکی عوام، لیکن ہم کہاں ہیں؟
ازقلم۔
محمد احمد حسن سعدی امجدی۔
حال ہی میں امریکہ میں ایک پولیس افسر کی جانب سے ایک عام آدمی پر کیے گئے ظلم و استبداد سے آج پورا امریکہ جل رہا ہے، ہر چہار جانب سے "پولیس انتہاپسندی بند کرو" جیسے نعروں سے پوری فضا گونج رہی ہے، لاکھوں کروڑوں افراد سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، لوگوں کا غم و غصہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ دنیا کی سب سے محفوظ جگہ وائٹ ہاؤس پر بھی پتھر بازی کی گئی، جس کی وجہ سے امریکی صدر دونالد ٹرمپ اور ان کے اہل خانہ کو کئی گھنٹوں کے لیے ڈمپر میں منتقل ہونا پڑا ، حکومت کی جانب سے دارالحکومت واشنگٹن سمیت چالیس سے زائد شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے ، لیکن اس کے باوجود حالات اب بھی بے قابو ہیں، پوری دنیا کو اپنی جھوٹی شان و شوکت سے خوفزدہ کرنے والا سپر پاور امریکہ اپنے ہی عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہوا نظر آرہا ہے۔
آخر کیا ہے امریکی عوام کے غم و غصہ کی وجہ؟
کس چیز نے لوگوں کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کردیا ؟
واضح رہے کہ امریکہ میں اس نازک ترین صورتحال کی شروعات ایک چھیالیس سالہ سیاہ فام جارج فلائڈ نامی شخص سے ہوئی ، جسے 15 مئی 2020 کو 20 ڈالر کے فرضی نوٹ چلانے کے جرم میں حراست میں لیا گیا ، جارج کی جانب سے دفاعی اقدام کرنے پر ایک پولیس افسر نے اسے زمیں بوس کردیا اور اس کے گلے پر اپنے پیروں کو رکھ کر زور سے دبایا جس سے اس کی سانس حلق میں محبوس ہو کر رہ گئی اور وہ مر گیا، اتفاق سے اس پورے معاملے کی ویڈیو بنائی گئی جس میں پولیس افسر کا ظلم کھلم کھلا دکھائی دے رہا ہے، یہ ویڈیو نہایت ہی برق رفتاری سے پورے امریکہ میں پھیل گئی، جس کے خلاف عوام سڑکوں پر اتر آئے، حکومت اور پولیس کے خلاف نعرے بازیاں کی گئی، حکومت کو اس کا سیاہ چہرہ دکھانے کے لیے کئی ایک پولیس اسٹیشن اور موٹر گاڑیوں کو نذرآتش کیا گیا اور امریکی عوام کی طرف سے یہ احتجاجات ہنوز جاری ہیں۔
ایسے میں امریکی عوام پوری دنیا میں انسانیت کی مثال بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ہونا بھی چاہیے حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب گلستاں میں رقم طراز ہیں۔
کہ اے عقلمند! پانی کے چشمے کے سرے کو شروع ہی میں بند کر دے کیونکہ جب یہ پر ہو جائے گا تو ہاتھی سے بھی نہیں رکے گا،
یعنی اگر ظالم پر شروع ہی میں نکیل کس دی جائے، ظلم روکنے کے مناسب اقدام کر لیے جائیں تو وہی دن اس ظلم کے مٹنے کا دن ثابت ہوتا ہے اور اگر خاموش رہ کر ظلم سہتے رہے اور صبروتحمل کا مظاہرہ کرکے تماشائی بنے رہے تو دن دوگنا رات چوگنا پھلتا پھولتا رہے گا اور اس کی شاخیں آپ کے سینے میں پیوست ہوتی نظر آئیں گے،
بلاشبہ امریکی عوام کا یہ کام لائق صد تحسین اور قابل عمل ہے لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے،
کہ مسلمان کب ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا؟
کیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ كل مؤمن إخوة یعنی ہر مومن بھائی بھائی ہے، یہ ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟
کیا جس مذہب میں ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرنے کو بھی جہاد کے نام سے تعبیر کیا گیا ،اس مذہب کے ماننے والوں میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی سکت باقی نہیں رہ گئی؟
اب مسلمانوں کو امریکی عوام سے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بارے میں سیکھنا پڑے گا،
آج دنیا میں اسلامی ممالک کی تعداد تقریباً 57 ہے جو کہ کسی دوسرے مذہب کے پاس نہیں ، لیکن اس کا فائدہ ہمیں کتنا پہنچ رہا ہے؟ یہ بنام مسلم حکمراں اسلام دشمن طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے چپ رہنے کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، پتا کب چپی توڑیں گے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق کی بالادستی کے لیے آوازیں بلند کریں گے، آگے آئیں گے؟
ہمارا قبلہ اول اور سیکڑوں انبیاءکرام کی یادگار بیت المقدس آج اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے، آئے دن انتہا پسندوں کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے جارہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کے سربراہان خاموش ہیں، برما میں لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بقیہ افراد کو جلاوطنی کی زحمت سے برداشت کرنی پڑی،
لیکن افسوس! کہ سارے اسلامی ممالک خواب خرگوش میں مست ہیں ، عراق میں مسلمانوں پر بمباری کی خبروں سے اخبارات بھی خون کے آنسو روتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ہمارے لیڈر حضرات اپنے محلوں میں داد عیش دے رہے ہیں، بیواؤں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کے رونے، بلکنے کی آواز جسے سن کر مردہ دل شخص بھی رو پڑے لیکن افسوس ہے اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے یہ نام نہاد لیڈران پر،کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو یہاں کی موجودہ صورت حال بھی کچھ کم ابتر نہیں، چند مہینے قبل دہلی میں وقوع پذیر حادثہ بھی کسی پر ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن ایک بھی اسلامی ملک نے اس کی مذمت نہیں کی، اس کے خلاف آواز حق بلند نہیں کیا سوائے افسوس سے لبریز چند جملوں کے، جو کہ ہماری تکلیف کم کرنے کے قابل نہیں، اور نہ ہی ان سے مظلوموں میں امید کی کرن اجاگر ہو سکے گی، ایسے پر آشوب اور نازک دور میں پوری دنیا کے اسلامی ممالک کو یکجا ہونا ہوگا ، ہر ایک کی تکلیف کے وقت دوسرے کو اس کی پشت پناہی کرنی ہوگی، ایک مومن کو دوسرے مومن بھائی کے لیے ڈھال بننا ہوگا، تب جا کر کہیں ہمیں اپنا کھویا ہوا وقار مل سکے گا، تب اس دنیا میں ہمارا رعب ودبدبہ بحال ہوسکے گا، اور دنیا بھر کی باطل قوتیں انگشت بدنداں ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔
اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمام اسلامی ممالک میں باہمی اتحاد پیدا فرمائے، ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرنے کی قوت عطا فرمائے،اور پوری دنیا میں مذہب اسلام کا بول بالا فرمائے۔
احمد حسن سعدی امجدی۔
مسکن ۔
لکھن پورواں، رودھولی بازار ضلع بستی، یوپی ، انڈیا۔
8840061391
Comments
Post a Comment